غازی علم دین شہید رحمۃ اللہ علیہ


حرمت رسالت مآب پر اپنی جان نچھاور کرنے والا یہ فقیر منش سفید پوش عاشق رسول 3 دسمبر 1908 کو لاہور کے ایک علاقے کوچہ چابک سوارں میں پیدا ہوا. آپ کے والد طالع محمد پیشے کے اعتبار سے نجار یعنی لکڑی کے کاریگر تھے. غازی علم دین نے ابتدائی تعلیم اپنے محلے کے ایک مدرسے میں حاصل کی. تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے آبائی پیشہ کو اختیار کیا اور اس فن میں اپنے
 والد اور بڑے بھائی میاں محمد امین کی شاگردی اختیار کی.1928 میں آپ کوہاٹ منتفل ہوگئے اور بنوں بازار میں اپنا فرنیچر سازی کا کام شروع کیا.

لاہور کے ایک ہندو ناشر راج پال نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پر مبنی بدنام زمانہ کتاب شائع کی۔ جس پر مسلمانوں میں سخت اضطراب پیدا ہوگیا. مسلمان رہنماؤں نے انگریز حکومت سےاس دل آزار کتاب کو ضبط کرانے اور ناشر کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا.مجسٹریٹ نے ناشر کو صرف چھ ماہ قید کی سزاسنائی۔ جس کے خلاف مجرم نے نے ہائی کورٹ میں اپیل کی جہاں جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے اس کو رہا کردیا. انگریز حکومت کی عدم توجہی پر مایوس ہوکر مسلمانوں نےمتعدد جلسے جلوس منعقد کئے.مگر انگریز حکومت نے روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دفعہ 144 نافذ کرکے الٹا مسلمان رہنماؤں کو ہی گرفتار کرنا شروع کردیا.مسلمانوں میں یہ احساس جاگزیں ہونے لگا کہ حکومت وقت ملعون ناشر کو بچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور یہ کہ اس ملعون کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے ان کو خود ہی کچھ کرنا ہوگا.

لاہور کے ایک غازی خدابخش نے24 ستمبر 1928 کو اس گستاخ کو اس کی دکان پر نشانہ بنایا تاہم یہ بھاگ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگيا.غازی خدابخش کو گرفتاری کے بعد 7 سال کی سزاسنائی گئی. افغانستان کے ایک غازی عبدالعزیز نے لاہور آکر اس شاتم رسول کی دکان کارخ کیا مگر یہ بدبخت دکان میں موجود نہیں تھا اس کی جگہ اس کا دوست سوامی ستیانند موجود تھا۔ غازی عبدالعزیز نے غلط فہمی میں اس کو راج پا ل سمجھ کر اس پر حملہ کرکے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا.غازی عبدالعزیزکو حکومت وقت نے چودہ سال کی سزا سنائی. راج پال ان حملوں کے بعد نہایت خوفزدہ رہنے لگا. حکومت نے اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے دو ہندو سپاہیوں اور ایک سکھ حوالدار کو اس کی حفاظت پر متعین کردیا. راج پال کچھ عرصے کےلئے لاہور چھوڑ کر کاشی ، ہردوار اور متھرا چلا گیا مگر چند مال بعد ہی واپس آگیا اور دوبارہ اپنا کاروبار شروع کردیا. غازی علم دین کی غیرت ایمانی نے یہ گوارہ نا کیا کہ یہ ملعون اتنی آسانی سے بچ نکلے آپ نے اس کو اس کے انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کرلیا .آپ نے 29 اپریل 1929 کو راج پال کی دکان کا رخ کیا.اس وقت یہ ملعون اپنی دکان پر ہی موجود تھا. آپ نے اس کو للکارتے ہوئے کہا "اپنے جرم کی معافی مانگ لو اور اس دل آزار کتاب کو تلف کردو اور آئندہ کے لئے ان حرکات سے باز رہو"راج پال نے اس کو گیدڑبھپکی سمجھ کر نظرانداز کردیا. اس پر آپ نے ایک ہی بھرپور وار میں اس بدبخت کا کام تمام کردیا. اس کی دکان کے ایک ملازم نے قریبی تھانے انارکلی کو خبر دی جس پر پولیس نے آپ کو گرفتار کرلیا. آپ اس واقعہ کے بعدناصرف مکمل پرسکون رہے بلکہ آپ نے فرار ہونے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی. آپ نے اس کاروائی کا اعتراف کیا اور گرفتاری پیش کردی. مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لوئس کی عدالت میں پیش ہوا جس نے ملزم پر فرد جرم عائد کرکے صفائی کا موقع دیئے بغیر مقدمہ سیشن کورٹ میں منتقل کردیا.آپ کی جانب سے سلیم بارایٹ لا پیش ہوئے جنہوں نے آپ کے حق میں دلائل دیئے مگر نیپ نامی انگریز جج نے آپ کو مورخہ 22م مئی1929 کو سزائے موت کا حکم سنایا. مسلمانان لاہور نے فیصلہ کیا کہ کہ سیشن کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جائے اور اس مقدمے میں غازی کی وکالت کے لئے شہرہ آفاق وکیل محمد علی جناح کو نامزد کیا جائے.چنانچہ محمد علی جناح بمبئی سے لاہور تشریف لائے ان کی معاونت جناب فرخ حسین بیرسٹر نے کی.15 جولائی 1929 کو ہائی کورٹ کے دو جج نے فیصلہ سناتے ہوئے سیشن کورٹ کی سزا کو بحال رکھا.اور غازی کی اپیل خارج کردی. اپیل خارج ہونے کی اطلاع جب جیل میں غازی کو ملی تو آپ مسکرا کر فرمایا " شکر الحمداللہ ! میں یہی چاہتا تھا.بزدلوں کی طرح قیدی بن کر جیل میں سڑنے کے بجائے تختہ دار پر چڑھ کرناموس رسالت پر اپنی جان فدا کرنا کرنا موجب ہزار ابدی سکون وراحت ہے" مسلمانوں عمائدین نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف لندن کی پریوی کونسل میں اپیل دائر کی .اس اپیل کا مسودہ قائد اعظم کی زیر نگرانی تیار کیا گیا.مگر انگریز حکومت جو ایڈیشنل سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ تک مسلم دشمنی کا مسلسل مظاہرہ کرتی آئی تھی اس اپیل کو بھی رد کردیا.

غازی کی اپنے رشتہ داروں کوجو وصیت فرمائی وہ قابل غور ہے. " میرے تختہ دار پر چڑھ جانے سے وہ بخشے نہیں جائیں گےبلکہ ہر ایک اپنے اعمال کے مطابق جزا اور سزا کا حق دار ہوگا اور انہیں تاکید کی کہ وہ نماز نہ چھوڑیں اور زکوٰة برابر ادا کریں اور شرعِ محمدی پر قائم رہیں".

31 اکتوبر1929 بروز جمعرات کو میانوالی جیل میں آپ کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا.

آپ کی شہادت کے بعد انگریز حکومت نے آپ کے جسد خاکی کو قبضے میں رکھا اور کسی نامعلوم مقام پر سپردخاک کردیا جس پر شدید احتجاجی لہر اٹھی .4 نومبر 1929 کو مسلمان رہنماؤں کے ایک وفد ( جن میں علامہ اقبال، سر محمد شفیع، مولانا عبدالعزیز، مولانا ظفر علی خان، سر فضل حسین، خلیفہ شجاع،میاں امیر الدین،مولانا غلام محی الدین قصوری شامل تھے) نے گورنر پنجاب سے ملاقات کی اور جسد خاکی کی حوالگی کا مطالبہ کیا.گورنر نے شرط عائد کی کہ اگر مذکورہ رہنما پرامن تدفین کی ذمہ داری اور کسی گڑبڑ کے نا ہونے کی یقین دہانی کرائیں تو جسد خاکی مسلمانوں کے حوالے کیا جاسکتا ہے . مذکورہ وفد نے یہ شرط منظور کرلی .13 نومبر 1929 کومسلمانوں کا ایک وفد سید مراتب علی شاہ اور مجسٹریٹ مرزا مہدی حسن کی قیادت میں میانوالی روانہ ہوا اور دوسرے روز جسد خاکی وصول کیا.موقع پر موجود لوگوں کا بیان ہے کہ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود جسد خاکی میں ذرا بھی تعفن نہیں تھا اور لاش بالکل صحیح وسالم تھی.چہرے پر جلال و جمال کا حسین امتزاج تھا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی. محکمہ ریلوے نے یہ جسد خاکی 15 نومبر 1929 کو لاہور چھاؤنی میں دو مسلم رہنماؤں علامہ اقبال اور سر محمد شفیع کے حوالے کیا.

شہید کا جنازہ لاہو ر کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ کہلاتا ہے جس میں تقریبا چھ لاکھ مسلمانوں نے شرکت کی. جنازہ کا جلوس ساڑھے پانچ میل لمبا تھا. شہید کی نماز جنازہ قاری شمس الدین خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی.مولانا دیدار شاہ اور علامہ اقبال نے شہید کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا.اس موقع پر علامہ نے فرمایا " یہ ترکھان کا لڑکا ہم سب پڑھے لکھوں سے بازی لے گیا ".لوگوں نے عقیدت میں اتنے پھول نچھاور کئے کہ میت ان میں چھپ گئی.

بہاولپور روڈ کے کنارے میانی صاحب قبرستان میں ایک نمایاں مقام پر آپ کی آخری آرام گاہ موجود ہے.مزار کے چہار اطراف برآمدہ ہے مزار بغیر چھت کے ہے. مزار کے مشرق میں غازی کے والد محترم اور والدہ محترمہ کی بھی آخری آرامگاہیں موجود ہیں. لوح مزار پر پنجابی اور اردو کے کئي اشعار کندہ ہیں